Wednesday, August 26, 2009


تنازعات کی رپورٹنگ میں صحافتی اخلاقیات کی اہمیت 




جکارتہ: جب ذرائع ابلاغ تنازعات کی کوریج کرتے ہیں تو طرح طرح کے الزامات ان کی دہلیز پر آن کھڑے ہوتے ہیں۔ غزہ پر تین ہفتے تک جاری رہنے والے اسرائیلی حملے پر بحث بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب بی بی سی نے غزہ میں اسرائیلی حملے کا شکار بننے والوں کی مدد کے لئے رفاہی ایجنسیوں کی اپیل نشر کرنے سے انکار کا فیصلہ کیا تو اسے گیارہ ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔

لیکن بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل مارک تھامسن نے یہ الزام قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ اسرائیل نواز مفادات کے طرف دار ہیں اور کہا کہ کارپوریشن کا یہ فرض ہے کہ وہ غزہ کی کوریج " متوازن اور غیر جانبدار طور پر" کرے۔

تنازعات کی کوریج کرتے ہوئے صحافی کسی ایک فریق کی طرف داری پر مجبور ہو سکتے ہیں، خصوصاً جب وہ بچوّں کے بے گھر یا اپنے ماں باپ سے محروم ہونے جیسے واقعات دیکھتے ہیں۔ تاہم اس سے ان کی غیر جانبداری ان واقعات کی یرغمال بن سکتی ہے جن کی وہ کوریج کر رہے ہوتے ہیں۔

ہر صحافی کو اپنے ضمیر کی بات ماننی چاہیے لیکن اس کے ساتھ اپنا پیشہ وارانہ فرض بھی نبھانا چاہیے یعنی سچ کی رپورٹنگ کرنی چاہیے۔ مختلف ذرائع ابلاغ اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے مشترکہ بنیادی اصولوں پر مبنی کتاب " صحافت کے عناصر" میں مصنفین بِل کوواچ اور ٹام روسینسٹیل لکھتے ہیں کہ حقائق کے بارے میں معلومات اکٹھی اور ان کی تصدیق کرنے کے بعد " صحافی کو ان کے مطالب کی ایماندارانہ اور قابلِ اعتماد تصویر پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔"

صحافیوں کو کسی تنازعہ میں شامل تمام فریقین کی صحیح عکاسی کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر تنازعہ کے دوران ایک اسرائیلی فوجی نے سفید کپڑا لہرانے کے باوجود ایک بوڑھی عورت کو گولی ماردی جس کے پوتے کو اس نے اپاہج بنایا تھا۔ بی بی سی نے اس واقعے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے دو عینی شاہدین کا حوالہ دیا۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کا ردِّ عمل جاننے کی کوشش بھی کی جس پر اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

رپورٹنگ کے دوران تمام متعلقہ ماخذات کا احاطہ کرنا ہی وہ طرزِ فکر ہے جو صحافی کی ساکھ کو برقرار رکھتی ہے۔ بااعتماد رپورٹنگ کرکے صحافی ایمانداری کے ساتھ کسی واقعہ کے بارے میں قابلِ اعتماد معلومات فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور عمداً واقعے کا ہو بہو نقشہ کھینچتا ہے۔ 

یہ کوئی آسان کام نہیں کہ کسی واقعے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اس سے لا تعلق رہا اور اس کا اثر نہ لیا جائے۔ صحافی اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں۔ تاہم اپنے کام سے مکمل انصاف کرنے کے لئے انہیں خود پر قابو رکھنا پڑتا ہے۔ 

غزہ کی لڑائی کی کوریج کرتے ہوئے فلسطینیوں کی طرف داری کرنے سے اُن کے نصب العین کی وکالت تو شاید ہوگئی لیکن اس سے نفرت پھیلی اور میڈیا پر جانبداری کے الزامات لگے کہ یہ " ہم بمقابلہ وہ" قسم کی ذہنیت کو فروغ دے رہا ہے۔

انڈونیشیا میں مالوکو جزائر کا فرقہ وارانہ تنازعہ جانبدار رپورٹنگ کی مثال پیش کرتا ہے۔ اس تنازعہ میں 1990 سے 2001 تک تشدد کے واقعات میں آٹھ ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ یہ تشدد صوبائی دارالحکومت ایمبون میں شروع ہوا تھا اور پھر مالوکو کے شمالی اور جنوب مشرقی حصّوں تک پھیل گیا۔

ایمبون کے ذرائع ابلاغ گروہی بنیادوں پر تقسیم ہوگئے اور ریڈیو سٹیشنوں سمیت تمام مقامی ذرائع ابلاغ متحارب دھڑوں کا راگ الاپنے اور تیزی سے شدّت پکڑتے ہوئے تنازعہ کے دوران اشتعال انگیز خبریں جاری کرتے رہے۔

فروری 2002 میں جب جنوبی سولا ویسی کے پہاڑی شہر مالینو میں متحارب مذہبی گرہوں میں امن معاہدہ ہوا تب کہیں جا کر رپورٹنگ میں جانبداری کا عنصر کم ہوا۔ امن بحال کرنے میں غیر جانبدار اور غیر اشتعال انگیز رپورٹنگ پر یقین رکھنے والے صحافیوں کی طرف سے قائم کیا گیا مالوکو میڈیا سینٹر کافی مدد گار ثابت ہوا تھا۔

انڈونیشیا میں رپورٹر عمومی طور پر "صحافت کے عناصر" میں بیان کئے گئے صحافت کے بین الاقوامی ضابطۂ اخلاق کی پاسداری کرتے ہیں لیکن مالوکو جزائر کے واقعے کے بعد وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے مزید ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں کہ ان کی رپورٹنگ میں جانبداری کا عنصر دوبارہ شامل نہ ہونے پائے۔ 

اس مقصد کے لئے مارچ 2006 میں انڈونیشیا کے 29 صحافتی اداروں اور تنظیموں نے "صحافتی ضابطۂ اخلاق (کے ای جے)" تشکیل دیا جس کی توثیق انڈونیشی پریس کونسل نے بھی کی۔ اس ضابطے کی پہلی شق میں ہی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ " انڈونیشی صحافی درست، متوازن اور بغض سے پاک خبریں دینے میں آزاد ہیں"۔

امید ہے کہ یہ دستاویز متوازن اور غیر جانبدار رپورٹنگ میں انڈونیشیا کے صحافیوں کی رہنمائی کرے گی کیونکہ "صحافت کے عناصر" ساری دنیا کے صحافیوں کے لئے ہے۔


No comments:

Post a Comment